Orhan

Add To collaction

اممیدنو کا روشن سوےر

" ہونہہ بڑا آیا لوگوں کے حالات بدلنے والا' اسکول کھولے گا' لوگوں کو مفت علاج کی سہولت مہیا کرے گا ' اب دیکھتا ہوں کیسے کھلتا ہے اسکول ' ارے یہ ساری زمینیں اور جائیداد کا میں اکلوتا وارث ہوں اس کانٹے کو تو نکال پھینکا اب اس کمین زادی سے نمٹتا ہوں آج قدرت نے اچھا موقع دیا ایک تیر سے دو شکار ، ابھی اس کم بخت سے بھی میں دو بول بول کر جان چھڑاتا ہوں، وہ شیریں بائی کے پاس جو نئی چھوکری آئی ہے کیا مکھن ملائی ہے وہ ؟ اب تو اس کو دل کی ملکہ بناؤں گا، راج کرے گی اس حویلی میں، میرے دل کی شہزادی اور یہ بابا سائیں اور بی جان کی زندگی بھی کتنی ہے، اس کے بعد ساری جائیداد پر میرا قبضہ ہو گا ہاہاہا ‘‘ انسان کسی برائی کا سوچتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ اوپر والا منصف ہے وہ ظالم کو اس کے کیفرکردار تک پہنچا کررہتا ہے۔

پھر بابا سائیں کے منع کرنے پر وقتی طور پر وہ مہرو کو طلاق دینے سے رک گیا تھا مگر اس کا ارادہ جلد از جلد اس کو فارغ کرنے کا تھا مہروکو اب حویلی تک محصور کر دیا گیا تھا وہ معصوم لڑکی فضول روایت کے بھینٹ چڑھ گئی تھی نہ جانے کب تک مہرو جیسی بنت حوا کو ابن آدم کی بھول کا قرض ادا کرنا ہوگا۔

آج کل شاه بخت اپنے دوست نبیل کے فلیٹ میں سکونت پذیر تھا وہ یونیورسٹی کے بعد نبیل

کے آفس میں بھی پارٹ ٹائم جاب کر رہا تھا ایم بی اے کے فائنل ائیر کے بعد اس کا شاندار اکیڈمک ریکارڈ کے ساتھ فیوچر برائٹ تھا فی الحال ایسے امتحانی فیس اور دیگرتعلیمی اخراجات کی فکرنہیں تھی کیونکہ بابا سائیں نے اس کے اکاؤنٹ میں پہلے ہی کافی رقم اس حوالے سے ٹرانسفر کروا دی تھی مگر وہ اپنے زور بازو پر کچھ کرنا چاہتا تھا جس کے لئے تجربہ ضروری تھا لہذا اس نے نبیل کے مشورے پراس کے آفس میں بطور اکاؤنٹنٹ جاب کر لی تھی اسے اپنے بھائی کی خصلت کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے اور اپنے ارادے سے اسے بے دخل کر نے کے لئے اس نے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے مگر مصلحت کے تحت وه خاموش تھا وقت آنے پر اسے اپنے ارادے کوعملی جامہ پہنانے سے کوئی ہمیں دستبردار کر سکتا تھا، آج وہ یونیورسٹی کے بعد جلدی جلدی آفس کی طرف روانہ ہوا تو اوپر زینہ چڑھتے ہوئے اس کا ٹکراؤ سامنے سے آتی لڑکی سے ہو گیا شاید وہ بھی عجلت میں تھی۔

"اوہ سوری پلیز میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔ " شاہ بخت نے جلدی جلدی سر پکڑے بیٹھے وجود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ساتھ ہی اس کا ہینڈ بیگ فائل اور باقی بکھری چیزیں سمیٹنے لگا۔

"کیا اندھے ہیں آپ؟ رئیس زادہ ہونے کی وجہ سے فرش کی بجاۓ عرش کی طرف دیکھ کر چلتے ہیں جو سامنے سے آتی ایک جیتی جاگتی وجود نظر نہیں آئی ۔" مانوس آواز پر شاہ بخت نے چونک کر سر اٹھا کر دیکھا تو اپنے سامنے نورالعین کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی اس سے پہلے کہ وہ اسے مخاطب کرتا، نورالعین نے بیگ اور دیگر

چیزیں اس کے ہاتھ سے چھینے کے انداز میں لیں اور اس کا داخلی دروازہ پار کر گئی ۔

"یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ کیا نبیل اس کو جانتا ہے، یا نبیل کے ساتھ کوئی رشتہ داری ہے؟‘‘ یہی سب سوچتے ہوۓ وہ بھی اس کے پیچھے گلاس ڈور دھکیلتا ہوا اندر داخل ہوا تو اس کو ایک شدید جھٹکا لگا عین اس کی سیٹ کے سامنے نور اپنی چاندنی بکھیرتے حسن سے بے نیاز براجمان تھی۔

"اوہ تو جو جونیئر اکاونٹنٹ پچھلے دنوں اپنے والد کے علالت کی وجہ سے چھٹی پرتھی وہ نورالعین ہے، امیزنگ اس دن کے بعد میں نے اس کو کہاں کہاں نہیں تلاش کیا ہر ڈیپارٹمنٹ میں کھوج لگائی اور جب مایوس ہونے لگا تو اللہ نے اس گوہر نایاب سے اس طرح ملاقات کروا دی۔

   2
1 Comments

fiza Tanvi

15-Dec-2021 07:34 PM

Good

Reply